قیس بن حجاج نے جن صاحب سے یہ روایت سنی ہے وہ نقل کرتے ہیں جب حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مصر فتح کیا تو ان کے پاس اہل مصر اس مہینہ میں آئے جس کو ’بونہ‘ ان کی زبان میں کہتے ہیں‘ بونہ عجمی زبان میں ایک مہینے کا نام ہے اور ان سے کہا اے امیر! ہمارے اس نیل کے لیے ایک طریقہ ہے اس میں پانی بغیر اس طریقہ کے نہیں رہتا ہے‘ ان سے پوچھا کہ وہ طریقہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا جب اس مہینے کی بارہویں رات گزر جاتی ہے تو ہم ایک ایسی کنواری لڑکی کی طرف قصد کرتے ہیں جو اپنے ماں باپ کی اکلوتی ہوتی ہے‘ اس کے ماں باپ کو ہم راضی کرلیتے ہیں اور اسے ہم زیور اور لباس فاخرہ سے جہاں تک ہوسکتا ہے‘ مزین کرتے ہیں‘ پھر ہم اس لڑکی کو دریائے نیل میں ڈال دیتے ہیں تو ان سے حضرت ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے فرمایا یہ بات اسلام میں نہیں ہوسکتی‘ اسلام ہر اس رسم کو گرا دیتا ہے جو اس سے پہلے ہے‘ چنانچہ اہل مصر ان تین مہینوں میں بونہ اور ابیب اور مسری میں ٹھہرے رہے‘ دریائے نیل بالکل بھی جاری نہ ہوا یہاں تک کہ ان لوگوں نے جلاوطنی کا ارادہ کیا‘ جب یہ بات حضرت ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دیکھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پاس اس بات کو لکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے انہیں جواب دیا کہ تم نے یہ بات ٹھیک کہی کہ اسلام اپنے سے پہلی رسموں کو مٹا دیتا ہے‘ میں تمہارے پاس یہ پرچہ بھیجتا ہوں جب تمہارے پاس میرا خط پہنچے تو اس پرچہ کو نیل کےاندر ڈال دینا‘ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا خط ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے پاس آیا اس پرچہ کو کھول کر پڑھا تو اس پرچہ میں صرف اتنا مضمون تھا: ’’اللہ کے بندہ عمرامیرالمومنین کی طرف سے اہل مصر کے دریائے نیل کیلئے، امابعد! اگر تو اپنی طرف سے جاری ہوتا تھا تومت جاری ہو اور اگر اللہ واحد قہار نے تجھ کو جاری کیا تھا تو ہم اللہ واحد قہار سے سوال کرتے ہیں کہ تجھ کو جاری کردے‘‘ حضرت ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے یہ پرچہ دریائے نیل میں اس روز سے ایک دن پہلے جس میں کہ یہ لوگ لڑکی کو بھینٹ چڑھاتے تھے‘ ڈال دیا۔ ادھر اہل مصر جلاوطنی کا اور مصر سے چلے جانے کا اس لیے ارادہ کیے ہوئے تھے کہ ان کی معاش کا معاملہ دریائے نیل کے بغیر درست نہ ہوسکتا تھا۔ بھینٹ چڑھانے والے دن جب لوگوں نے صبح دیکھا کہ اللہ پاک نے دریائے نیل کا پانی سولہ ہاتھ اونچا بہادیا ہے۔ اور یہ بُرا طریقہ اہل مصر سے ہمیشہ کیلئے ختم ہوگیا۔ (اور آج تک دریائے نیل نہیں سوکھا ہے)عروۃ الاعمیٰ مولیٰ بنی سعد نے بیان کیا کہ ابوریحانہ سمندر میں سوار ہوئے اور یہ نبی کریم ﷺ کے صحابی ہیں یہ سلائی کاکام کرتے تھے ان کی سوئی سمندر میں جاپڑی تو انہوں نے کہا اے رب! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو میری سوئی ضرور واپس کردے‘ وہ سوئی سطح سمندر پر ظاہر ہوئی اور انہوں نے اسے اٹھالیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم ﷺ نے حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو تحرین بھیجا تو میں بھی ان کے پیچھے گیا میں نے ان سے تین باتیں دیکھیں میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کونسی زیادہ عجیب ہے؟ جب ہم سمندر کے کنارے پہنچے انہوں نے کہا اللہ کا نام لو اور اس میں گھس جاؤ‘ چنانچہ ہم نے اللہ کا نام لیا اور اس میں اتر گئے اور اس سےپار ہوگئے اور ہمارے اونٹوں کے تلوے تک بھی تر نہیں ہوئے تھے۔ایک روایت میں ہے کہ حضرت علاء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے مسلمانوں سے کہا کہ ہمارے ساتھ دارین چلو تاکہ ہم ان دشمنوں سے غزوہ کریں جو وہاں ہیں‘ مسلمانوں نے فوراً اس کی تیاری کی‘ حضرت علاء رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ان کو لےکرچلے اور سمندرکے کنارے آگئے تاکہ کشتیوں میں سوار ہوں تو دیکھا کہ مسافت بہت بعید ہے‘ دشمنوں تک کشتی کے ذریعے نہیں پہنچ سکتے ہیں‘ دشمن بھاگ جائیں گے یہ اپنے گھوڑوں سمیت سمندر میں کود پڑے اور کہہ رہے تھے یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ یَاحَکِیْمُ یَاکَرِیْمُ یَااَحَدُ یَاصَمَدُ یَاحَیُّ یَامُحْیُ یَاقَیُّومُ یَاذَاالْجَلاَلِ وَالْاِکْرَامِ۔لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ یَارَبَّنَا اور سارے لشکر کو حکم دیا کہ گھس جائیں چنانچہ سارے لشکر نے ایسا ہی کیا سمندر نےانہیں اللہ کے حکم سے پار کرادیا یہ اس طرح سمندر پر چل رہے تھے جیسا کہ نرم ریت پر چلا جاتا ہے۔ اونٹوں کے پیر نہیں گھستے تھے اور گھوڑے سواروں کے رکاب تک پانی نہیں پہنچتا تھا اور یہ مسافت کشتی کیلئے ایک دن رات کی تھی۔ اس سمندر کو دوسرے کنارے تک پار کیا اور اپنے دشمنوں سے لڑے اور ان پر غالب آگئے اور ان کامال غنیمت جمع کیا اس کے بعد واپس آئے تو سمندر کو ایک دوسری جانب سے پارکررہے تھے کہ اپنی پہلی جگہ پر لوٹ آئے اور یہ سب بات ایک ہی میں ہوئی۔ اس کے بعد جب ہم لوٹے اور ان کے ساتھ چلے‘ زمین کے ایک جنگل میں‘ اور ہمارے پاس پانی نہیں تھا ہم نے ان سے اس بات کی شکایت کی انہوں نے دورکعت نماز پڑھی اس کے بعد دعا کی تو اچانک ڈھال کے برابر ایک ابر نمودار ہوا پھر اس ابر نے اپنی مشکیں لٹکادیں تو ہم نے پیا اور اونٹوں کو پلایا اور ان کی وفات ہوگئی‘ ہم نے ان کو ریت میں دفن کیا‘ ہم تھوڑی دور تک چلے تھے کہ ہم نے کہا کہ درندے آئیں گے اور ان کو کھاجائیں گے‘ ہم جو ان کی قبر کی طرف واپس ہوئے تو ان کو قبر میں نہ دیکھا۔ ایک روایت میں یہ اضافہ ہے جب ہم کو ان مکعبر کسریٰ کے گورنر نے دیکھا تو اس نے کہا خدا کی قسم ہم ان کا مقابلہ نہ کریں گے تو وہ ایک کشتی میں بیٹھ کر فارس چلا گیا۔(حیاۃ الصحابہ حصہ دہم)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں